Faraz Faizi

Add To collaction

23-Jul-2022( منفرد عنوان) " قلم کی جنگ" اور ایک چشم کشا تحریر۔


 .  .  .  .  .  .  راقم الحروف: فرازفیضی


پہلے یہ جانئے قلم کس نے ایجاد کیا؟
ابن عساکر نے جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 287 میں ذکر کیا ہے کہ قلم بنا نے کی صنعت کی ابتدا مسلمانوں نے کی ہے ،قرون اولی میں ہی پَر(جس کو لکڑی اور گنے سے بنا یا جاتا تھا ) سے لکھنے کی ابتدا کے بعد صاعد بن الحسن جو پانچویں صدی ہجری میں دمشق میں رہتا تھا نے روشنائی(دوات) والا قلم ایجاد کیا جس کو لوہے سے تیار کیا جس میں روشنائی بھر کر لکھا جاتا تھا اور اس کی روشنائی سے ایک مہینے تک لکھا جاتا تھا۔

قلم کی طاقت اور اس کی تاثیر کا دنیا نے اعتراف کیا ہے، اس کے ذریعے انسانوں نے تخت و تاج کو پلٹا ہے، حکومت و اقتدار اور سلطنت و ریاست کو حاصل کیا ہے، مخالف طاقتوں کو زیر و زبر کیا ہے، غلامی کو آزادی میں بدلا ہے، مظلوموں اور فریاد رسوں کو حقوق و انصاف دلایا ہے، بے راہ اور گمراہ کو راہ حق کی راہ نمائی کی ہے اور شر و فتن کے ماحول کو خیر و نیکی کے ماحول میں بدلا ہے۔
یقینا قلم علم و آگہی کا وسیلہ ہے، اس کی شہادت خود قرآن پاک نے دی ہے، بلکہ رب کائنات نے قلم کی قسم کھا کر اس کی عظمت و اہمیت کو لازوال کردیا ہے۔ اہل عرب کہتے ہیں کہ عقول الرجال فی اطراف اقلامھا، یعنی نوک قلم ہی لوگوں کی عقلوں کا پتہ دیتی ہے۔ اور یہ کہ۔،،فی القلم حکمتان، بلاغة المنطق، و جلالة الصمت ،،
یعنی قلم کی دو حکیمانہ شانیں ہیں، ایک تعبیر کی بلاغت، دوسری طرف خاموشی کا وقار۔ چنانچہ بظاہر خاموش رہ کر ہی قلم بلاغت کے موتی بکھیرتا اور فصاحت کے جادو جگاتا ہے،۔

ان تمام باتوں سے قلم کی طاقت و اہمیت کا بخوبی اندازہ تو ہوہی گیا ہوگا۔یہ بھی سچ ہے کہ "قلم" ہی قلمکار جنم دیتا ہے اور انہیں دنیائے ادب و صحافت اور ثقافت میں شناخت فراہم کرتا ہے، اور اگر اسی قلم کی طاقت کا اگر کوئی غلط استعمال کرے تو اس کا نتیجہ مذہب و ملت، مسلک و معاشرت کی دنیا میں افتراق و اختلاف کی جنگ چھڑ جاتی ہے اور پھر "قلم کی یہ جنگ" صدیاں گزرجانے پر بھی ختم نہیں ہوتیں۔

فی زمانہ قلم کی اس جنگ میں قلمکاروں، نامہ نگاروں، دانش وروں، اور تصنیف کاروں کا ایک بڑا طبقہ صف اول میں پیش پیش نظر آتا ہے جو کہیں نہ کہیں حقائق سے چشم پوشی کی ناکام کوششوں میں لگا ہے، عدل و انصاف لکھنے کے بجائے ظالموں کا خوشامدی بنا ہوا ہے۔اس بڑھ کر حرما نصیبی اور کیا ہوگی کچھ مصنفین نے اپنے فاسد نظریات کو بغض و حسد کی سیاہی میں ڈُبو کر اپنے ہی مذہب و ملت کے خلاف لکھا، اور اللہ و رسولﷺ کی راہ سے بھٹک گئے، " قلم کی جنگ" دشمنان حق کے لئے ہونی تھی مگر انہوں نے اپنے ہی پیغمبر کے حضو نازیبا اور گستاخانہ عبارت لکھ کر، اہل اللہ، بزرگان دین سے دشمنی مول کر اللہ عزوجل کے خلاف بغاوت کا بِگُل بجا ڈالا۔اور خود کو اہل حق والی جماعت گرداننے لگے، اور جنہوں نے اللہ و رسول ﷺ، صحابہ و اہل بیت، اولیاء عظام اور علمائے حق کا راستہ چنا، بدعتی، سنی ، قبر پوجوا، وغیرہ گھناونے الفاظ سے پکارا گیا۔

اسی طرح کی ایک کتاب میرے نظر سے گزری جس کا نام " تقویت الایمان مع تذکیر الاخوان مولفہ مولوی اسمعیل و نصیحة المسلمین مولفہ مولوی خرم علی مطبوعہ لاہور (١٩٧٨ء) شائع کردہ امجد اکیڈمی، لاہور۔
یہ کتاب در اصل ابن عبدالوہاب نجدی کی تالیف " کتاب التوحید" کا اردو جامہ ہے۔جو تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے لکھی گئی۔اس دور میں حضور اکرم ﷺ سے عشق اور مشائخ عظام و اولیاء کرام سے محبت و عقیدت کے چرچے عام تھے ،شاہ وقت بہادر شاہ ظفر خود اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔مولوی اسماعیل دہلوی کے انقلابی طبیعت کو یہ ماحول بیگانہ معلوم ہوا اور انہوں نے ابن عبدالوھاب کی روش پر چلتے ہوئے ماحول کے خلاف بھرپور قلمی جنگ کی شروعات کردی اور تقویۃالایمان لکھ کر عوام و خواص کے عشق و محبت کو جھنجھوڑا۔علمائے خیراباد اور علمائے بدایوں علمائے بریلی علمائے فرنگی محل اور علمائے دہلی وغیرہ نے تقویۃ الایمان کی بعض عبارات کی گرفت کی اور بعض علماء نے اس کے رد لکھیے اور یہ سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے۔

تقویۃ الایمان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام محبوبان خدا کی جناب میں جو بے باکانہ اسلوب اور گستاخانہ عبارات ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں:

لکھتے ہیں:  یقین مانو ہر شخص خواہ وہ بڑے سے بڑا انسان ہو یا مقرب ترین فرشتہ اس کی حیثیت شان الوہیت کے مقابلے پر ایک چمار کی حیثیت سے بھی زیادہ ذلیل ہے"(معاذاللہ)
پھر لکھتے ہیں: تمام انبیاء اولیاء اس کے سامنے ایک ذرے سے بھی کمتر ہیں"(تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان،مطبوعات لاہور،ص: ٢٨) 

مذکورہ اقتباسات میں مولوی اسمٰعیل نے انبیاء و صلحاء خصوصا حضور ﷺ کو بھی دبے لفظوں میں چمار سے زیادہ ذلیل کے اذیت ناک الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کو لکھتے ہوئے بھی قلم لرز رہا ہے۔ چمار اور بھنگی نیچ قومیں ہیں اس لیے محبوبان خدا کو بدترین کفار و مشرکین اور مغضوبین سے تشبیہ دینا بلکہ ان سے بدتر کہنا کہاں تک درست ہے؟ ۔۔ذرا غور کریں کہ وہ اولیاء اللہ جن کی عظمت اللہ تعالیٰ "انعمت علیہم " کہہ کر اور حدیث قدسی میں یوں بیان کرکے فرمارہا ہے کہ جس نے میرے ایک ولی سے بغض رکھا اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کیا" وہ صحابہ جن کے مرتبے کو سارے قطب و ابدال و اوتاد مل کر نہیں پہنچ سکتے،  اور پھر وہ رسول ﷺ جن کے شہر و کلام و بقاء کی قسم قرآن مجید اٹھائے، جو انبیاء کی امامت فرمائیں، انہیں ذرّہ، بھنگی، اور چمار وغیرہ سے زیادہ ذلیل کے اذیت بھرے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا جانا کفر و ظلالت اور گمرہی نہیں تو کیا ہے؟۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ

آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ جن مولوی نے یہ اپنی کتاب میں لکھا ہے انہیں کے پیروکار آج دیوبندی، وہابی، تبلیغی، نجدی اور بدمذہب کہلاتے ہیں اور توحید کے نام پر بھولے بھالے مسلمان کا ایمان چراتے ہیں۔ایسوں کی نشانیاں جو احادیث مبارک میں بیان کی گئ ہیں وہ یہاں بیان سے قاصر ہیں۔مضمون کی طوالت کی بنا پر رقم نہیں کرسکتا۔آخری بات کہتا چلوں " تقریریں بھلادی جاتی ہیں، تحریریں زندہ رہتی ہیں" حق لکھا ہے تو اچھی بدعت ہے، قیامت تک جتنے پڑھیں گے لکھنے والے کو سب کے برابر ثواب دیا جائے گا اور اگر باطل لکھا ہے تو یہ بُری بدعت ہے اور اس کا حکم یہ کہ قیامت تک جتنے اس پر عمل پیرا ہوں گے، لکھنے والے کو ان سب کے برابر گناہ و عذاب ملیگا۔(الحدیث)

جب تک باطل رہے گا حق کا قلم خنجر خونخوار بن کر انہیں کیفر کردار تک پہنچاتا رہے گا اور اس طرح " قلم کی جنگ" میں حق پرستوں فتح ہوتی رہے گی۔

کلکِ رضا ہے خنجر خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں، نہ شر کریں

   8
5 Comments

Khan

25-Jul-2022 10:06 PM

Nice

Reply

Rahman

24-Jul-2022 11:13 PM

Nyc

Reply

Zoya khan

24-Jul-2022 05:14 PM

بہت بہت خوبصورت لکھا ہے🌹🌹

Reply